آخر (ش) کی شادی ہوگئی خالہ دلہن دیکھنے گئی (ش) خوش ہوگئی کہ خالہ مجھے ملنے آئی ہے لیکن اس بیچاری کو یہ پتا نہیں تھا کہ خالہ کی آنکھوں میں منفی شاعیں فٹ ہیں
سخت گرمی کے روزے میں نظر بد کی شکار ہوئی
ایک دفعہ اپنی ہمسائی خالہ کی نظر بد کے کارنامے تحریر کیے تھے اب کچھ اور واقعات منظر عام پر آئے ہیں ‘جو آپ سب کی دلچسپی کیلئے سپردِ قلم کررہا ہوں۔ پچھلی گرمیوں کے دن تھے رمضان شریف کا مہینہ تھا دوپہر کے وقت ہمسائی خالہ تشریف لائیں میری خالہ کو دیکھا وہ کمرے کا فرش دھورہی تھیں‘ پوچھنے لگی روزہ ہے جواب دیا الحمدللہ روزہ ہے فرش دھو رہی ہوں تاکہ ٹھنڈک ہو جائے پھر ظہر پڑھ کر تھوڑا سا سولیا جائے ‘بولی ہمت ہے آپ کی گرمیوں کے روزے بھی رکھ رہی ہو‘ سکول میں ڈیوٹی بھی دے آئی ہو‘ اب فرش دھورہی ہو‘ اتنا فرما کر وہ گھر روانہ ہوگئیں اب خالہ وضو کرکے مصلے پر چڑھی ہی تھیں آدھی نماز بمشکل مکمل کی‘ اس شدت سے بخار چڑھا کہ شام کے وقت ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا وہ روزہ بھی مکمل نہ ہوا پورا ایک ہفتہ بخار رہا آٹھ روزے قضا ہوگئے پھر دوا علاج بھی دم درود بھی کروائے تب جاکر طبیعت سنبھالی ان کی نظر آٹھ روزے کھاگئی۔
ہماری باجی کو خالہ کی نظربد کھاگئی!
ایک اور موقع پر خالہ تشریف لائیں‘ میری امی سے کہنے لگیں آپ کی بھتیجی جو دیہات میں بیاہی گئی تھیں سنا ہے ادھر شہر میں شفٹ ہوگئی ہے‘ میری امی نے کہا: ہاں بچوں کو پڑھانے کیلئے وہ شہر آگئے ہیں‘ ورنہ دس سال تو اس نے بغیر بجلی گیس کے دیہات میں گزارے ہیں۔ اب خالہ بڑی حسرت سے کہنے لگیں :میری بیٹی تو دیہات میں رہ رہی ہے اس کا میاں شہر آنے پر راضی ہی نہیں ہوتا‘ دیکھو لوگوں کی لڑکیاں کتنی چالاک ہوتی ہیں‘ کیسے خاوند کو شہر لے آئی ہے‘ اب اس کا ہم کیا جواب دیتے‘ خاموش ہو رہے لیکن خالہ متواتر اس بات کا ذکر کرتی رہیں‘ وقتًا فوقتاً اسی قصہ کو دہراتی رہتی‘ میری بیٹی تو دیہات میں رُل گئی‘(ش) کیسے اپنے میاں کو یہاں (شہر)لے آئی۔ قارئین!یقین جانیے ہماری باجی نے دو سال بمشکل خوشی سے گزارے‘ اس پر سوکن پڑ گئی۔ ویسے تو شاید ہماری باجی کی قسمت ہی تھی لیکن ہمیں سوفیصد خالہ کی نظربد کا کمال لگتا ہے۔
نظربد نے ہمسائی کو قبر میں پہنچا دیا
قریبی ہمسائیوں میں ایک کلرک کی بیگم رہتی تھی انتہائی سفید پوش لوگ تین مرلہ زمین لے کر ایک چھوٹا سا کمرہ بنوایا لیکن خود وہ سلیقہ شعار اور محنتی اتنی تھیں کہ حد سے زیادہ‘ ان کا میاں مٹی ڈلوا دیتا وہ تمام گھر کو اپنے ہاتھوں سے اتنا خوبصورت لیپتی تھیں کہ چپس اور ماربل والے گھروں کو مات کردیتا ‘کچی اینٹوں سے کچن خود تعمیر کیا۔ بالٹی کے اندر مٹی سے انگیٹھی بنائی، کچن کے باہر اتنا صاف ستھرا چوکا بنایا روزانہ اپنے صحن کی صفائی کرتی تھیں اب ہماری ہمسائی خالہ ہمہ وقت اس کی صفائی کے گن گاتی اور بار بار کہتی کہ (ز)کو دیکھو کیسے سب اپنے ہاتھوں سے بناتی ہے کتنا خوبصورت چوکا بنایا ‘چولہے کتنے خوبصورت اور نفیس بنائے ہیں ہمارا ماتھا ٹھنکا خدا کرے (ز) کے ہاتھ بچ جائیں اور واقعی جس کا ڈر تھا وہی ہوا چند دنوں کے بعد (ز) ہمارے گھر آئیں تو اس ہاتھ ایسے پھٹے ہوئےتھے جیسے سردیوں میں پانی میں کام کرنے والے مزدوروں کے پھٹتے ہیں وہ بولی اب میرے ہاتھوں میں شدید جلن اور کھجلی ہوتی ہے میں گھر کا کوئی کام نہیں کرسکتی‘ میری چھوٹی سی نو سال کی بیٹی ہے وہی بیچاری ہانڈی روٹی کرتی ہے‘ آخر (ز) کا مرض بڑھ گیا وہ فیصل آباد اپنے والد کے پاس چلی گئیں ڈاکٹروں کو دکھایا ڈاکٹروں نے گرم دوائیں دیں کچھ بھی افاقہ نہ ہوا بلکہ گرم دوا کا یہ اثر دل میں ہوگیا آخر دل کا آپریشن ہوا انتہائی کمزور اور لاغر ہوگئی چھوٹا سا مکان بھی فروخت ہوکر اس کے علاج پر لگ گیا دو چھوٹے چھوٹے بچوں کو چھوڑ کر ابدی نیند سو گئی۔ واقعی صحیح کسی بزرگ کا قول ہے کہ نظر اُونٹ کو ہانڈی میں اور انسان کو قبر میں پہنچا دیتی ہے ۔ نظر جنات جادو سے بھی اوپر کی چیز ہے۔
خالہ کی نظر بد نے ہنستی کھیلتی (ش) کا گھر اُجاڑ دیا
چوتھا واقعہ:ایک اور واقعہ ہے یہ بھی ہمارے سامنے ہوا ہمارے محلے کے ا یک
غریب گھر کی واجبی سی شکل کی لڑکی کا کہیں رشتہ نہیں ہورہا تھا اچھی خاصی عمر کی ہوچکی تھی کہ اچانک قدرت مہربان ہوگئی۔ اچھا مناسب اور معقول رشتہ اس کے لیے آگیا جیسے ہی خالہ کو خبر ہوئی خالہ حیرت سے اُچھل پڑی‘ارے (ش) کو کون عقل کا اندھا لے کے جارہا ہے نہ شکل‘ نہ صورت‘ نہ ہی دولت پیسہ ہے کہ جہیز پہ مر رہا ہو۔ ہم نے کہا خالہ ایسے نہیں کہتے غریب گھر کی بچی ہے اللہ اس کا نصیب اچھا کرے آخر (ش) کی شادی ہوگئی خالہ دلہن دیکھنے گئی (ش) خوش ہوگئی کہ خالہ مجھے ملنے آئی ہے لیکن اس بیچاری کو یہ پتا نہیں تھا کہ خالہ کی آنکھوں میں منفی شعاعیں فٹ ہیں (ش) نے خوشی خوشی بتایا خالہ میرا میاں بہت اچھا ہے وہ اب چاہتا ہے کہ میرے میکے کے محلے میں کوئی زمین دیکھ کر مکان بنوا کر تیرے نام کردوں گا جیسی شریف اور نیک میں چاہتا تھا خدا نے مجھے ویسی ہی بیوی دے دی۔ خالہ وہاں سے واپس آئیں تو ہمہ وقت یہ راگ الاپ رہی تھیں ارے دیکھو کالی (ش) کی قسمت اچھا خاوند اچھا گھر مل گیا اب میاں اسے شہر میں مکان بنوا کر دینے والا ہے۔ایک ہمارے بیٹی ہے اتنی خوبصورت پڑھی لکھی جنگلوں دیہاتوں میں رُل گئی، آخر خالہ کی منفی شعاعوں نے (ش) کو اُجاڑ کر رکھ دیا ابھی شادی کو صرف ڈیڑھ سال ہوا تھا کہ اچانک اس کا شوہر دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگیا‘ ڈیڑھ سال کونسی مدت ہوتی ہے مکان بھی نہ بن سکا بچہ بھی کوئی نہ ہوا (ش) اُجڑ کر بیٹھ گئی۔ گو کہ یہ سب حکم ربی ہوتا ہے لیکن نظر کا عمل دخل یقیناً ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں